حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ اعرافی نے قم المقدسہ میں منعقدہ ہندوستان کے متعدد علماء اور حوزہ علمیہ کے مدیروں سے ملاقات میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے روز شہادت کے موقع پر تعزیت پیش کی اور آغاز امامت و ولایت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی مبارکباد پیش کی اور کہا: امام رضا علیہ السلام پر ولی عہدی کے مسلط ہونے کے بعد امام علیہ السلام کی اولادوں کو سخت اور مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا، یہ وہ زمانہ تھا جب بنی عباس کی یہ شیطانی سازش تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ ولایت الہی کو حکومت دنیوی میں ضم کر دیں اور اس طرح ولایت الہی کو دنیا سے ختم کر دیا جائے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امام رضا علیہ السلام کی تحمیلی اور جبری ہجرت، جزیرہ عرب کی سرزمینوں سے باہر امام معصوم علیہ السلام کی موجودگی اور قیام کا وسیلہ بنی، امام رضا علیہ السلام پر ولی عہد کا مسلط کرنا اولیائے الہی کی ولایت اور امامت کے بہاؤ سے نمٹنے کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ اور شیطانی تدبیر تھی جس کے نتیجے میں تاریخ میں امام کی حکمت کے ساتھ بے مثال ہدایات الہی اور واقعات سامنے آئے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں حوزہ علمیہ قم کی صد سالہ قدیم تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے کہا: جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ حوزہ علمیہ قم کا پرچم بردار ہے۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ساتھ ہی اس نے عصر حاضر کے لیے ایک نئی دنیا کھول دی ہے۔
حوزہ علمیہ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ علم، حکمت عملی اور صحیح منصوبہ بندی سے عظیم کام انجام دئے جاسکتے ہیں، علوم دینی اور علوم شرعی سے پیدا ہونے والی عظمت، اسلام اور انقلاب کے دشمنوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
انہوں نے ملک ہندوستان کو دنیا کا ایک عظیم قطب اور مرکز قرار دیا اور تمام شعبوں میں اس کی ترقی اور عظمت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: ہندوستان کا عظیم اور تاریخی ورثہ، کتب خانے، علمائے کرام اور اس وسیع سرزمین کے علماء کی کاوشوں کانجف اور دنیا کے دیگر حوزہ علمیہ میں احیا ہونا چاہئے۔ ہندوستانی علماء کو تمام جہتوں اور زاویوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس وقت ضرورت ہے کہ ایک جامع اور متوازن منصوبہ بندی کر کے ہندوستانی معاشرے کی تمام ضروریات کا حساب لگایا جائے اور ان کے حل کے لیے اہم اقدامات کئے جائیں۔
حوزہ علمیہ کے ڈائریکٹر نے فقیہ، مجتہد، فلسفی، مفکر اور بین الاقوامی مفسر کی تربیت کی اہمیت کا جائزہ لیا اور کہا: دنیا بھر کے تمام علماء اور فضلاء خاص کر ہندوستان کی وسیع و عریض سرزمین کے علمائے کرام کے لئے ضروری ہے کہ ایک اسٹریٹجک اور جامع طریقے سے ہندوستان کے علمی اور تاریخی ورثے کا احیا کریں۔